99 musibtay tal denay wala wazefa
By Adtoonvally 1 views 2 years ago
99 musibtay tal denay wala wazefa
اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان ، بار بار رحم کرنے والا ہے
_____________________________
پڑھنے والے اے میرے ہم عمر
اور مجھ سے تھوڑا بعد میں آنے والے
اور وہ بھی جو چالیس برس کی کمال عمر کو پہنچے ہیں
اور سبھی۔۔۔۔
اگر تم ٹھان لو تو تم سب کچھ کرسکتے ہو !
مگر سب کچھ ہو بھی جائے ، ایسا کس نے کہہ دیا ؟
تم ممکن ہو
تمہاری کوشش ممکن ہے
مگر کائنات اپنے دستور رکھتی ہے۔
کامیابی کیا ہے ؟ اسکا جواب لکھنے والے نے اتنا ظلم نہیں ڈھایا جتنا اس جواب کو حرفِ آخر مان لینے والوں نے کردیا۔
کچھ چیزیں ہمیشہ لامعلوم کے دائرے میں رہتی ہیں۔اور کبھی تمہارے اندر کا انتشار انہیں زمین پہ اترنے پہ مجبور کردیتا ہے مگر ہر چیز کی مکمل تعریف ابھی نہیں لکھی گئی۔
اک اور دنیا ابھی باقی ہے!
اب تک جو مجھے لگا ہے وہ یہ بہت سے یقین تو محض قیاس آرائیاں ہیں۔بہت سے عقیدے تو بس دل کے مرض ہیں۔
امی نے چاول صاف کرنے کو دیے ، جب کنکر الگ کرلیے تو چاول پہلے سے آدھے رہ گئے۔
پھر سمجھ آیا کبھی خالص ہوجانے پہ ہم آدھے رہ جاتے ہیں۔اکیلے پڑ جاتے ہیں !
مگر تنہائی ہی تو دنیا کا واحد خوبصورت ہجوم ہے ، اگر تم سمجھو۔۔۔
لیکن ہم تو وزن کو وزن سمجھتے ہیں ! تھوڑے کی خوشی محسوس کرنے کی برکت ، خالص کی پہچان تو کرم والے پہچانتے ہیں۔
خیر کامیابی ایسی شریر شے ہے کہ جس پہ لکھتے ہوئے بھی ناکام ہورہی ہوں اور موضوع کسی اور سمت نکل رہا ہے۔
کامیابی کیا ہے ، کیا نہیں ! اسے چھوڑو۔۔
مجھے لکھنا ہے کہ
ناکامی وہ نہیں جو تم نے پڑھی ، سنی ، خود کو بتائی اور بار بار اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھا۔
تم انسان ہو !
جس شے کو توجہ سے دیکھنے لگتے ہو ، کِھل جاتی ہے۔
اور جب حقارت سے دیکھتے ہو ، وہ اتنی شدت سے تمہاری جانب بڑھنے لگتی ہے۔
تمہارے صحن کا پودا بن کر تمہارے گھر میں رہنے لگتی ہے۔آتے جاتے تمہاری نگاہ کے احاطے میں رہنے لگتی ہے۔
بھلا سوچا ہے کیوں ؟
کیونکہ تم جس گھر سے نکل کر زمین پر اتارے گئے ہو وہاں نفرت ،اور حقارت کی روایت ہے نہ گنجائش ۔۔
وہاں صرف محبت کے پھول کھلتے ہیں اور امن کی کلیاں مہکتی ہیں۔
ناکامی کو حقارت سے دیکھ دیکھ کر جب تم عمر کے پرلے درجوں کو پہنچنے لگتے ہو تو تمہیں دکھائی دینے لگتا ہے
نہ ہی کامیابی وہ تھی جسے تم نے کامیابی سمجھا !
نہ ہی ناکامی وہ قرار پائی جسے تم ناکامی کہتے اور سنتے آئے!
مراحل تھے ، سلسلے تھے ، سیڑھیاں تھیں ، زینے تھے۔۔۔دی اینڈ کہیں نہیں تھا۔
بس تمہیں زیست کی حقیقتوں سے ملوانے کے بہانے تھے۔
تمہاری امی جب تمہارے بالوں میں پیار سے کنگھا پھیرتے جانے انجانے میں تمہیں ناکامی سے دور بھاگنے کا کہا کرتیں تو تمہاری روح بھاگ بھاگ کر ہلکان ہوجاتی تھی۔
سوچتی ہوں عورت کو معاشرہ ہر طرح سے ثانوی درجہ دیتا ہے پھر رب اپنی اہم ترین تخلیق انسان کو عورت کے ہاتھ کیوں سونپ دیتا ہے ؟ قدرت انسان کی حفاظت ، نشوونما اور تعمیر کیلیے عورت پہ کیوں اعتماد کرتی ہے؟
اب تک یوں سمجھ آئی ہے کہ عورت ہر قدم پہ رنج اٹھاتی آتی ہے۔عمر کے ہر درجے پر اسکے اندر کہیں نفیس سا رنج بسیرا کرلیتا ہے۔
اب قدرت اسے موقع دیتی ہے کہ رنج کو perspectives میں بدل دے اور غم کے سیپی سے موتی چن لے ۔
عورت کو ہر قدم پہ حکمت سے سرفراز کرنے کا جیسا موقع دیا گیا ہے یہ اسکی خوش نصیبی ہے جسے نصیب والیاں ہی سمجھ پاتی ہیں۔
جب وہ موتی چننے والی بن جاتی ہے تو وہ مومن ، غازی اور معاشرے کے کارآمد فرد تعمیر کرتی ہے۔
کیونکہ یہ اسی کے ہاتھ ہے کہ بالوں میں کنگھا پھیرتے وہ نظریے کے بیج بو رہی ہوتی ہے ، سوچ کی پنیریاں لگاتی ہیں اور یقین کے پیڑ کھڑے کرتی ہے۔
اگر پڑھنے والی آنکھ ممتا سے روشن ایک ماں کی آنکھ ہے تو کہوں گی
کل صبح اپنے بچے سے کہنا
چلو تمہاری ناکامیاں سیلیبریٹ کریں !
ایک پھول اگاتے ہیں ، کچھ رنگ بھرتے ہیں اور کوئی گیت گاتے ہیں۔
اگر آنسو بہنے کو ضد کریں تو بہنے دیتے ہیں مگر ناکامی کو دی اینڈ قرار دینے کا فضول کام نہیں کریں گے۔
اگر موجود رہیں گے
تو ناکامی سکھا پائے گی
اگر گم ہو جائیں گے
تو ناکامی بوجھ بن جائے گی
یہ تو سیڑھی ہے
راستہ بن جائے گی
جولائی کی گرمی میں کوئی مجھ سے کہتا
دسمبر کی شامیں بھاری ہیں
میں اسے دکھ قرار دیتی !
مگر کائنات نے اسباق تیار رکھے تھے
حکمتیں پوشیدہ تھیں
آنسو تو بہتے ہیں
پھر امید کی پھوار بن جاتے ہیں
امی سے کہتی تھی
تھک رہی ہوں !
جواب میں مسکراتیں
تمہیں اضافی درد ہونا ہے
تم نے خود ہی نہیں سیکھنا
پھر لکھنا بھی تو ہے !
میں کہوں
بخار تیز تر ہے
وہ کہیں
نثر نکھر رہی ہے
تو اے پڑھنے والے ! ممکن تو بس کوشش ہے ! جذبہ ہے ، نیت ہے ، محنتیں ہیں ۔۔۔
کہ کر دکھاؤ۔۔۔
ہو بھی جائے ، ضروری تو نہیں ۔۔
کیونکہ کامیابی وہ تو نہیں جو تم اور میں سمجھتے آئے ہیں۔۔
زخم سے روشنی لازماً آتی ہے ، راحت سے آئے نا آئے ۔۔۔
اگر تم سیکھ سکتے ہو تو ناکامی سے بڑھ کر کوئی سکھاتا نہیں۔۔
گریس فل انداز میں نمٹنا ہے اس سے۔۔رونے کی اجازت ہے مگر اسے مرحلہ سمجھ کر احترام دینا ہے۔
ہر مشکل کیساتھ آسانیاں ہیں۔
اور پرفیکشن تو سر کا درد ہے۔ ایزی رہو۔۔
مجھے ایک نظم بڑی بھا گئی ہے ،یہ سال میں ایک یا دو بار ہی ہوتا ہے کہ مجھے شاعری اچھی لگے۔ ناکام ہوں اگر اسے اس موضوع میں لکھ دوں۔۔۔
یہ ایک دلچسپ ناکامی ہوسکتی ہے کیونکہ بس دل چاہ رہا ہے لکھنے کو تو دل ہو ہمیشہ اول نہ سہی ہمیشہ ثانوی درجہ دینا بھی چھوڑ دینا چاہیے۔
اسکی سن رہی ہوں ، کسی شاعر کی اک پیاری نظم لکھ رہی ہوں۔
تمہاری اور میری ناکامیوں کے جشن میں
جو ہمیں بہت کچھ دے گئی ہیں
مگر ہم کامیابی کے پیچھے تھے۔
چلو پلٹتے ہیں ، سمیٹ لیتے ہیں ! حکمتیں ساری۔۔۔
نظم یوں ہے
مصلحت کی شاموں میں
محفلیں محبت کی
اور محبتیں بھی وہ
سال بھر مہک جن کی
دل کی ساری گلیوں میں
رقص کرتی پھرتی ہے
کس طرح جلاتے ہو
آندھیوں کے موسم میں
تم دئیے رفاقت کے
تم جو پیار کی دولت
اپنے ہاتھوں سے
خوشبوؤں کی باتوں سے
اس طرح لٹاتے ہو
جس طرح کوئی جگنو
شب کے ریگزاروں پر
روشنی لٹاتا ہے
تم جو حبس موسم میں
اِک ہوا کا جھونکا ہو
کس طرح سجاتے ہو
مصلحت کی شاموں میں
محفلیں محبت کی
کچھ ہمیں بھی بتلاؤ
کچھ ہمیں بھی سکھلاؤ
ہم تو اپنے صحرا کے
بے نوا مسافر ہیں
ہم تمہارے جذبوں کی
نیک سی فضاؤں میں
پھول جیسے گیتوں کی
رقص کرتی خوشبو کے
بے قرار شاعر ہیں۔۔۔
پڑھنے والی آنکھ مسکرا دے ، تمہیں ناکام ہونے کا پورا حق ہے مگر سیکھنا تمہارے ہونے کا حُسن ہے۔